من مانے نہ از قلم قانتہ خدیجہ
"بات کرنی ہے تم سے۔۔۔" سینہ چوڑا کیے وہ حائقہ کے سامنے آکھڑا ہوا۔
"تو کھڑے شکل کیا دیکھ رہے ہو بولو۔۔۔"حائقہ کے لفظوں پر جبران نے اسے گھور کر دیکھا۔
"یہ لو اس پر سائن کرو! " اس نے حائقہ کے سامنے ایک کاغذ لہرایا۔
"یہ کیا ہے؟" حائقہ نے حیرانگی سے اس صفحے کو دیکھا۔
"اس گھر میں رہنا چاہتی ہو تو کچھ رولز فولو کرنا ہو گے تمہیں "!
"مثلاً کیسے رولز ؟" اس نے سینے پر بازو باندھے پوچھا۔
گلا کھنکھارے جبران رولز پڑھنا شروع ہوا۔ "رول نمبر 1: تم مجھے تم کی بجائے آپ کہہ کر بلاؤ گی"
"اوہ ! " حائقہ نے ہونٹوں کو گول شکل دی۔ "رول نمبر 2: میری اجازت کے بنا کہی آنا جانا نہیں ہو گا تمہارا!!"
"اچھا سہی آگے۔۔۔ " حائقہ نے اسے مزید پڑھنے کو کہا۔
"رول نمبر 3: میرے صبح کے ناشتے سے لے کر رات کے کھانے، کپڑے،آفس کی فائلز۔۔۔ ہر ایک چیز کا خیال تمہارے زمے ہو گا، جیسے باقی سب بیویاں کرتی ہیں۔۔"
"آہاں؟"
"رول نمبر 5 : میرے بچوں کی دیکھ بھال بھی تمہارا کام ہے تو تم ہی کرو گی۔" "اوکے۔۔۔" اس نے سر ہلایا۔
رول نمبر 6 : سیگریٹ نہیں پیوں گی تم " ! "مگر کیوں ؟ " حائقہ نے یوں آنکھیں پٹائی جیسے اسے باقی رولز سے کوئی مسئلہ نہ ہو۔ "میرے بچوں پر اس کا برا اثر ہو گا ! " جبران کچھ اکڑ کر بولا۔
"تم بھی تو پیتے ہو۔۔۔ کبھی کبھار ! " حائقہ نے منہ بنایا جیسے برا مان گئی ہو۔
"ان کے سامنے نہیں پیتا۔۔۔گھر سے باہر پیتا ہوں۔۔" "میں بھی گھر سے باہر پی لوں گی۔۔۔ " حائقہ نے منانے کی کوشش کی۔
"تمہیں رول سمجھ میں نہیں آیا؟۔۔۔ نہیں کا مطلب نہیں۔۔۔"
"اچھا چلو بتاؤ کہاں سائن کرنے ہیں ؟ " حائقہ نے ہاتھ آگے کیے وہ کاغذ مانگا۔
جبران کا سینا خوشی و مسرت سے پھول اٹھا، اس کی بیوی آخر کار اس کے قابو میں آگئی تھی۔
"یہاں !" اس نے خوشی خوشی سب سے آخر پر موجود خالی حصے پر انگلی رکھی۔
"میں سائن تو کر دوں مگر کچھ رولز میرے بنائے گئے بھی تو ہونے چاہیے نا!"
حائقہ نے معصومیت سے آنکھیں پٹپٹائی۔ "ہونے تو چاہیے !۔۔ بتاؤ کیا ایڈ کروانا ہے تمہیں ؟" سوچ کر جبران نے سر متفق انداز میں ہلایا۔
"نہیں نہیں رولز تو نہیں ہیں، بس کچھ باتیں کلئیر کرنی ہیں !" وہ مسکرا کر اس کے قریب ہوئی۔
"کرو۔۔" جبران نے اجازت دی یکدم ہو نٹوں سے مسکراہٹ غائب ہوئی، اس کی جگہ بھیانک مسکراہٹ لے چکی تھی۔
"پہلی بات: تم نے یہ سوچ بھی کیسے لیا کہ میں تمہیں آپ بلاؤں گی، آپ کہلوانے سے پہلے، آپ والی شکل و صورت تو لے آؤ۔۔۔" "دوسری بات: کیا کہا تھا کہ تمہاری اجازت مانگو کہی آنے جانے سے پہلے ؟۔۔۔ تو تم سے اجازت مانگتی ہے میری جوتی، ہو کون تم مجھے اجازت دینے والے ؟۔۔۔"
"تیسری بات: اور کیا کہہ رہے تھے تمہارے کھانے پینے، سونے جاگنے، اٹھنے بیٹھنے کا دھیان رکھوں؟ ۔۔۔ بیوی ہوں کہ چوبیس گھنٹے سروس پر موجود پرسنل میڈ؟" "چوتھی بات : ارے چوتھارول تو تم نے بتایا نہیں چلو جانے دو۔"
"پانچویں بات : کیا کہاں تمہارے بچے سنبھالوں ؟۔۔۔ خیر بچوں کی بات ہے اسے بھی جانے دیتے ہیں۔"
"چھٹی بات : سیگریٹ نہیں پیوں ؟۔۔۔ کیوں ناپیوں ؟ میں تو پیوں گی پیکٹ کے پیکٹ پیوں گی۔۔۔ روک سکتے ہو تو روک لو "
"گاڈ ! مجھے تو تمہارے کانفیڈینس پر حیرت ہو رہی ہے تم نے سوچ بھی کیسے لیا کہ میں تمہارے یہ رولز فولو کروں گی ؟۔۔۔
نہیں مطلب اتنے چھوٹے دماغ میں اتنا بڑا خیال آیا کیسے ؟"
بھنویں اچکائے حائقہ اس کے اوپر چڑھ چکی تھی،
جبکہ جبران پیچھے کو ہوا تھا۔
"اگلی بار اگر اس قسم کے رولز کے ساتھ دوبارہ میرے سامنے آئے تو اس کاغذ کی طرح مڑوڑ کر کوڑے دان میں پھینک دوں گی میں ! " ساتھ ہی رولز والا کاغذ مڑوڑے وہ ڈسٹ بن کی نذر کر چکی تھی۔
"انن۔۔۔ نہیں کرنے رولز فولو تو مت کرو۔۔۔ یہ لہجہ اپنا درست کر لو میرے ساتھ۔۔۔" ڈری سہمی گھبرائی آواز میں بھی وہ تڑی مارنے سے بعض نہ آیا۔
"یو نو واٹ۔۔۔۔ یو آرکیوٹ اور بہت انٹرسٹینگ بھی ہو۔۔۔اگر پہلے کبھی دل میں خیال آیا بھی ہو تمہیں چھوڑنے کا تو اب نہیں چھوڑوں گی۔۔۔۔ آخر کو ایسا جو کر ہر کسی کی لائف میں تھوڑی نہ آتا ہے !"
اس کے گال پر چٹکی بھرتی وہ واشروم میں چلی گئی تھی۔ جبران نے سکون کی گہری سانس خارج کی تھی۔ " چلو چھوڑ کر نہیں جائے گی یہ تو کنفرم ہوا! " بالوں میں ہاتھ پھیرے وہ ہنس دیا تھا....
No comments:
Post a Comment