’’یہ کہ میں ایک کتاب لکھوں، جس میں قرآن کی آیات کے رموز پہ غور کروں۔ لفظوں میں چھپی پہیلیوں کو سلجھاؤں۔ ان کے نئے نئے مطلب آشکار کروں۔ کہتا ہے نا قرآن کہ اس میں نشانیاں ہیں، مگر ان لوگوں کے لیے جو غوروفکر کرتے ہیں۔ میں بھی ان میں سے بننا چاہتی ہوں۔‘‘
وہ محویت سے، ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اسے سن رہا تھا۔
’’پھر کب لکھو گی یہ کتاب؟‘‘
’’کبھی نہ کبھی ضرور لکھوں گی۔ مگر پتہ ہے، میں ایک بات جانتی ہوں کہ اگر دنیا کے سارے درخت قلمیں بن جائیں، اور تمام سمندر روشنائی بن جائیں، اور میں لکھنے بیٹھوں، اور مجھے اس سے دوگنا قلم اور روشنائی بھی دے دی جائے، تب بھی سارے قلم گھِس جائیں گے، ساری روشنائی ختم ہو جائے گی، مگر اللہ تعالیٰ کی باتیں ختم نہیں ہوں گئی۔
''تم نے عبایا کب سے لینا شروع کر دیا؟''
وہی حیرت، سوال، تفتیش، تشویش۔
ایک لمبا اور جامع سا جواب دے کر بھی اسے لگا کہ زارا غیر مطمئن ہے اور غیر آرامدہ بھی۔ شاپنگ کرتے، جوتے دیکھتے، کپڑے نکلواتے اور پھر آخر میں راحت بیکرز کے سامنے پارکنگ لاٹ میں بیٹھے ''اسکوپ'' کا سلش پیتے ہوئے زارا بار بار ایک غیر آرام دہ نگاہ اس پہ ڈالتی جو پورے اعتماد سے عبایا اور نقاب مین بیٹھی سلش پی رہی تھی۔
''یار! چہرے سے تو اتار دو۔''
؛؛زارا! میرا نہ دم گھٹ رہا ہے، نہ ہی مرنے لگی ہوں۔ میں بالکل کمفرٹیبل ہوں۔ اگر تم نہیں ہو تو بتاوۤ۔'' وہ ایک دم بہت سنجیدگی سے کہنے لگی۔
وہ حیا سلیمان تھی۔ وہ عائشے گل کی طرح ہر بات نرمی سے سہہ جانے والی نہیں تھی۔ جب وہ اپنے زمانہ جاہلیت کے لباس پہ کسی کو بولنے کا موقع نہیں دیتی تھی تو اب نقاب پہ کیوں کسی کو بولنے دے؟ صرف حجابی لڑکی صبر کیوں کرے؟ اس کی رائے میں بہت زیادہ چپ رہنے کو بھی کمزوری سمجھا جاتا تھا۔
Ayeshay Gull
میں عائشے گل ہوں
میں ترازو کے ایک پلڑے میں اپنا وہ سراپا ڈالتی ہوں جس میں، میں خود کو اچھی لگتی ہوں اور وہ دوسرے میں وہ جس میں، میں اللّه تعالیٰ کو اچھی لگتی ہوں۔
میری پسند کا پلڑا کبھی نہیں جھکتا
اللّه کی پسند کا پلڑا کبھی نہیں اٹھتا
“جب انسان بہت زیادہ جھوٹ بولتا ہے تو ایک وقت ایسا آتا ہے جب اسے خود اپنے سچ کا اعتبار نہیں رہتا۔”
No comments:
Post a Comment